Education without Moral Training and Our Social Decline اخلاقی تربیت کے بغیر تعلیم اور ہمارا معاشرتی زوال | Kaniz Fatma, New Age Islam | New Age Islam | Islamic News and Views | Moderate Muslims & Islam
New Age Islam
Mon Apr 29 2024, 10:05 PM

Urdu Section ( 29 Apr 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Education without Moral Training and Our Social Decline اخلاقی تربیت کے بغیر تعلیم اور ہمارا معاشرتی زوال

کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام

29 اپریل 2024

اس مضمون میں ہم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہماری تعلیمی گراف بہت نیچے ہے اور ہمارے کچھ تعلیمی مراکز ہیں بھی تو ان میں تربیت کا فقدان ہے ۔کسی قوم کی ترقی کے لیے نہ صرف تعلیم بلکہ تربیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔

تربیت کا اثر تعلیم سے زیادہ ہوتا ہے۔ تعلیم اگر انسان کو شعور بخشتی ہے تو تربیت اس شعور کا مثبت استعمال سکھاتی ہے۔ تعلیم اگر غور و فکر کرنا، اچھے برے میں فرق کرنا اور سوال اٹھانا سکھاتی ہے تو تربیت جواب دینے کا سلیقہ اور آداب سکھاتی ہے۔ مختصراً یہ کہ تعلیم یافتہ افراد اگر ایک معاشرہ تشکیل دیتے ہیں تو تربیت یافتہ افراد ایک منظم اور مہذب معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ یہ امر حقیقت ہے کہ تعلیم کے مختلف شعبوں میں ہم مسلمان دوسری قوموں سے بہت پیچھے ہیں، حالانکہ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ علم و سائنس کی ترقی میں مسلمانوں کا کردار اہم رہا ہے۔ تعلیمی مراکز کی بات کی جائے تو مسلم علما نے مدارس تو قائم کر دیے لیکن اسکول اور کالجز کی طرف توجہ نہیں دی اور اسکول سے پڑھ کر کامیاب ہونے والے حضرات کی بھی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ عمدہ اسکول کے قیام میں اپنا کردار پیش کرتے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں فلاحی کاموں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں بلکہ نجی کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنی نجی زندگی کو خوشحالی کے ساتھ گزارنے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اپنے ملک کے لوگوں کو تعلیمی میدان میں آگے لانے پر توجہ نہیں دیتے۔یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے معاملے میں ہمارا گراف بہت نیچے ہیں اورجہاں تعلیمی مراکز ہیں وہاں تربیت کا گراف گرتا نظر آ رہا ہے ۔

آج میرا سوال یہ ہے کہ بعض ماڈرن مسلمان علمائے کرام کو ہر ناکامیابی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ چلیے مانتے ہیں انہوں نے صرف مدارس کے قیام پر توجہ دی اور عصری علوم کے لیے اسکول، کالجز، یونیورسٹی قائم نہیں کیے سوائے چند مراکز کے جن میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ لیکن باقی مسلمانوں نے عصری علوم کے لیے اسکول کالجز قائم کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر کیوں نہیں اٹھائی؟

دوسرا المیہ یہ ہے کہ آج ہم شرح خواندگی بڑھانے پر توجہ دینا شروع کر بھی رہے ہیں تو تربیت کے عناصر کو بالکل نظر انداز کر رہے ہیں۔کچھ سالوں قبل حال یہ تھا کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی تھی لیکن حالات نے جب خوب تقاضا کیا تو ہم نے ان کی تعلیم پر توجہ دی مگر تربیت کا یہاں بھی اب تک فقدان نظر آ رہا ہے۔

گھر اولین تربیت گاہ مانی جاتی ہے پھر اسکول اور پھر اس کے بعد اعلی تعلیم گاہیں جہاں مسلمانوں کی شرح خواندگی دوسری مذاہب کے لوگوں کے مقابلے بہت نیچے ہے۔ والدین اگر خود تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوں تو اپنے بچوں کی تربیت خود کر سکتے ہیں۔ آج بھی بہتر اخلاقیات اور آداب آپ کو ان بچوں میں نظر آئیں گے جن گھروں میں تربیت کا عمل دخل کسی حد تک موجود ہے۔ لیکن مجموعی طور پر تربیت گاہ بطور ادارہ تباہ ہو چکی ہے۔ اس کی ایک سب سے بڑی وجہ تعلیم و تربیت کا فقدان ہے۔

قرآن و حديث نے حصول تعلیم کے ساتھ حصول تربیت پر بھی زور دیا ہے۔ قرآن کریم میں تو متعدد مواقع پر کائنات میں غور و فکر کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ قرآن کی پہلی آیت میں ہی علم و تربیت حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے.۔اس لیے آج سب سے زیادہ تعلیم کی افادیت و اہمیت پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت پر خوب توجہ دینا ضروری ہے۔

بغیر تربیت کے تعلیم نہیں اور بغیر تعلیم کے کامیابی نہیں۔ مسلم سماج کی تعلیمی کمزوری کا جائزہ لیجیے تو ہمارے بچے دینی اور عصری دونوں تعلیم میں بہت کمزور ہیں اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ گارجین حضرات خورد و نوش سے زیادہ تعلیم پر محنت کریں۔

تربیت کے بغیر تعلیم سود مند نہیں ۔عالم اسلام کے عظیم فلسفی ومورخ علامہ ابن خلدون اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’مقدمہ ابن خلدون ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ دنیا میں عروج و ترقی کے زینوں تک پہنچنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے ۔‘‘

تاریخ کے صفحات پر لکھی داستانیں شاہد ہیں کہ جو قومیں اخلاقی انحطاط کا شکار ہوئیں وہ تباہ و برباد ہو گئیں ۔ان داستانوں کو لوگوں نے پڑھا ہے لیکن ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے ۔ہمارے لوگ الفاظ کی تعلیم تو حاصل کرتے ہیں مگر حرمت الفاظ کے شعور کو ترقی دینے میں دلچسپی نہیں لیتے ۔ اس وجہ سے آج لوگوں کا حال یہ ہے کہ سماجی ومعاشرتی ادب و احترام سے بہت دور دکھائی دیتے ہیں ۔ہر جگہ خود غرضی ،بے سکونی ،لاپرواہی اور بد اخلاقی کے ڈیرے ہیں ۔سخت ،چیختے چلاتے لہجے ، انتہاپسندانہ اور سخت گیر رو یئے معاشرتی اقدار کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور ایسے مفاد پرستی نے اپنے پنجے گاڑ ے ہیں کہ انسان انسان کو دیکھنا پسند نہیں کرتا ۔

دین کے نام پر چلنے والوں اداروں کا بھی یہی حال ہے کہ ہر بات بات پر اختلاف کی فضا قائم ہو رہی ہے ۔غیر ضروری مباحث میں پوری توانائی صرف کی جا رہی ہے اور مسلمانوں میں غیبت ، چغلی اور ایک دوسرے کے تئیں نفرت کا ماحول گرم ہے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی تعریف ان الفاظ میں ارشاد فرمائی:’’مسلمان وہ ہے ،جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں ‘‘۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ’’ زبان درازی سے زیادہ بری خصلت آدمی کیلئے اور کوئی نہیں‘‘ ۔

بلاشبہ کسی بھی معاشرے کی خوبصورتی اعتدال ، صبر و تحمل ، عدل و انصاف ، عمدہ اخلاق میں ہے ۔اگر ان کا فقدان ہو تو انتہاپسندی ، بے راہ روی ، پریشانی ، عدم برداشت اور لاقانونیت جیسے رویے پیدا ہوتے ہیں اور یہی ماحول اپنے اطراف میں ہم دیکھ رہے ہیں۔

 ہم نے فراموش کر دیا ہے کہ ہم ایک ایسے عظیم ترین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں جنہوں نے پوری زندگی عمدہ اخلاق کا مظاہرہ کیا ، عدل و انصاف کا قیام کیا ، پوری انسانیت کی تربیت میں گزاری ، طائف کی گلیوں میں سنگ ریزوں سے لہولہان ہو کر بھی دشمنوں کے لیے بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تھے ۔غور کرنے کا مقام ہےہمارے غیر مہذبانہ رویوں کی وجہ کیا ہے ؟ وہ کونسے عوامل ہیں جو ہماری معاشرے کی بنیاد کو کمزور تر بنا رہے ہیں ؟ جواب واضح ہے کہ جب تعلیم و تربیت کا فقدان ہو ، تو عدم برداشت و عدم رواداری کا پیدا ہونا فطری بات ہے ۔ہمارے معاشرتی زوال کے خاتمے کا ایک ہی راستہ ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دی جائے ۔

۔۔۔۔

کنیز فاطمہ عالمہ و فاضلہ نیز نیو ایج اسلام کی مستقل کالم نگار ہیں ۔

---------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/education-training-social-decline/d/132219

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..